شکستہ پر ہے یہ اونچی اڑان رکھتا ہے
شکستہ پر ہے یہ اونچی اڑان رکھتا ہے
پرندہ ہے تو پرندے کی شان رکھتا ہے
بہت ہی بوڑھا سہی پر اسی شجر سے گھر
تمام شہر میں اک آن بان رکھتا ہے
عجب ہی چیز ہے آنچل بھی ماں کا اے لوگو
کہ سر تو جیسے کوئی آسمان رکھتا ہے
وہ شخص جو مرے ہر فیصلے کا تھا پابند
سوالیہ مرے آگے نشان رکھتا ہے
ہوئی ہے بالوں کی چاندی سے بات یہ روشن
وہ پائے عمر کی سر پر تکان رکھتا ہے
وہ شہرتوں کے بیاباں میں ٹھہرا لا ثانی
کہ سرو سے کہیں بڑھ کر اٹھان رکھتا ہے
اگرچہ وعدہ نہیں پھر بھی جانے کیوں عامرؔ
یہ دل اسی کی ہی آہٹ پہ کان رکھتا ہے