دعا کے ہاتھ میں خنجر بڑا عجیب لگا

دعا کے ہاتھ میں خنجر بڑا عجیب لگا
بدلتے وقت کا منظر بڑا عجیب لگا


لہو وفاؤں کا پی کر بھی نہ ہوا گلزار
سیاستوں کا یہ بنجر بڑا عجیب لگا


زمیں سے روٹی اگانے ہی والے ہیں بھوکے
یہ محنتوں کا مقدر بڑا عجیب لگا


میں آئنہ تھا زمانے کے حادثوں کا ہی
اسی نے دیکھا جو ہنس کر بڑا عجیب لگا


ہوا ہے کیا کہ اجالوں سے ڈر رہے ہیں لوگ
تمہارے شہر کا گھر گھر بڑا عجیب لگا


گناہوں کے ہی گلے میں عنایتوں کا ہار
عدالتوں کا یہ زیور بڑا عجیب لگا


لٹی لٹی سی ہے راہیں مٹی مٹی منزل
سفر یہ عمر کا اکثر بڑا عجیب لگا