شہر کو چھوڑ دو اور گاؤں کو جاؤ تم بھی
شہر کو چھوڑ دو اور گاؤں کو جاؤ تم بھی
اس تعلق کے تکلف کو اٹھاؤ تم بھی
آگ جنگل میں بھڑک جائے گی کل شام تلک
آج بادل کو اداؤں سے لبھاؤ تم بھی
دوسرے چہرے مجھے کم ہیں رفاقت کے لیے
میری خاطر کوئی چہرہ تو سجاؤ تم بھی
میں کہیں سبزۂ خود رو کی طرح اگ آؤں
اور وہیں پھول کی صورت نکل آؤ تم بھی
میرے ہاتھوں میں ترے نام کی کوئی ریکھا
تیرے ہاتھوں میں نہ آئی ہو دکھاؤ تم بھی
چاند کو روک دیا میں نے ان ہاتھوں میں سہیلؔ
تم مجھے روک لو جادو یہ دکھاؤ تم بھی