شہر دل پھر مرا ویران ہوا جاتا ہے

شہر دل پھر مرا ویران ہوا جاتا ہے
گھر کی بربادی کا سامان ہوا جاتا ہے


غالباً پھر نئی افتاد پڑی ہے دل پر
سانس بھی نوح کو طوفان ہوا جاتا ہے


تیری ہر بات سے گرتا ہے کلیجہ کٹ کر
تیرا ہر لفظ تو پیکان ہوا جاتا ہے


ہجر کی رات تو کروٹ میں گزر جاتی ہے
اور دن بھی بہت آسان ہوا جاتا ہے


سارا غم میری ہی قسمت میں لکھا ہے سیفیؔ
دل مرا میرؔ کا دیوان ہوا جاتا ہے