شہر بدری کے دن گزر جاتے

شہر بدری کے دن گزر جاتے
کتنا اچھا تھا لوگ گھر جاتے


آن دے کر کے جان لائے ہو
کیا یہ لازم نہیں تھا مر جاتے


حکم نافذ تھا اپنے گھر میں رہو
بے گھری ہم بتا کدھر جاتے


محتسب نے بڑی ہی جلدی کی
عین ممکن تھا ہم سدھر جاتے


عمر جیسی گزار دی ہم نے
تم کو ملتی تو کب کے مر جاتے


ہائے رے التفات چارہ گر
زخم گہرے نہیں تھے بھر جاتے


لوگ کچھ دیکھ کر ٹھٹکتے تھے
اور کچھ سوچ کر گزر جاتے


کھا گئے روگ آگہی والے
ورنہ خوش باش دن گزر جاتے


دل تلک آن کر رکے سب کھیل
کیا مزا تھا جو اس میں سر جاتے


بیر لے کر بھی ساری دنیا کے
اک تجھے ہم خیال کر جاتے


نا شعوری میں خوش تھی دنیا شمسؔ
ہم بھی اے کاش بے خبر جاتے