غموں کے پھول سر شاخ مسکراتے ہیں
غموں کے پھول سر شاخ مسکراتے ہیں
اداسیوں کے یہ موسم کہاں سے آتے ہیں
بچھڑنے والوں کو الزام کیوں دیا جائے
دلوں کا کیا ہے بنا بات ٹوٹ جاتے ہیں
ترا خیال جو بدلا جنوں میں ہوش آیا
یہ راستے تو کہیں اور لے کے جاتے ہیں
پھر ایک شام ترے سنگ خود کو بھول آئے
سنانے والے کئی داستاں سناتے ہیں
کوئی تو ساتھ چلے منزلوں کا سکھ دیکھے
یہاں تو بیچ میں ہی لوگ چھوڑ جاتے ہیں
یہ کیسے خوف ہمارے دلوں سے چمٹے ہیں
یہ کیسے دل ہیں جنہیں واہمے ستاتے ہیں
ڈھلے ہیں قالب ایذا میں اس طرح ہم لوگ
اب اپنے خود کے ہی زخموں سے حظ اٹھاتے ہیں
برس کے یاد کے بادل ہمیں جلاتے ہیں
یہ کیسی آگ ہے کیسے اسے بجھاتے ہیں
ہیں وہ بھی لوگ جہاں میں کسی کا دکھ ہو کہ ساتھ
جو عمر بھر کا گھڑی بھر میں بھول جاتے ہیں
وہ جن کو ہم نظر انداز کرتے جاتے ہیں
پھر ایک دن انہیں موجود دل میں پاتے ہیں
کوئی بتائے کہ جب ساتھ ہو نیا چہرہ
پرانے چہرے سے کیسے نظر ملاتے ہیں
بھرے ہیں ایسے نظر میں ترے نقوش کے رنگ
کوئی بھی چہرہ ہو ہم تم کو ڈھونڈ لاتے ہیں
حصار شام میں کچھ اجنبی سے سائے ہیں شمسؔ
خموشیوں کے نگر میں ہمیں بلاتے ہیں