گلشن بے بہار ہیں ہم لوگ
گلشن بے بہار ہیں ہم لوگ
دامن خار زار ہیں ہم لوگ
چشم کوتاہ بیں کو کیا ہے خبر
خود ہی اپنے شکار ہیں ہم لوگ
آئنہ بھی یقیں نہ کر پائے
ایسے بے اعتبار ہیں ہم لوگ
کس قدر پر سکون ہے دنیا
کس قدر بے قرار ہیں ہم لوگ
وقت کے ناتمام صحرا میں
زندگی کا مزار ہیں ہم لوگ
آپ اپنی تلاش میں گم ہیں
آپ خود سے فرار ہیں ہم لوگ
اے شب انتظار کی خلوت
کیا ترے رازدار ہیں ہم لوگ
عہد شکنی ترے زمانے میں
عہد ناپائیدار ہیں ہم لوگ
اپنے اندر سے ہیں فقط عنقا
باقی سب میں شمار ہیں ہم لوگ
شمسؔ خود کو ہی بس نہیں ملتے
ایک ڈھونڈو ہزار ہیں ہم لوگ