جس کی جو ہے طلب تماشہ ہے
جس کی جو ہے طلب تماشہ ہے
یہ بھی کتنا عجب تماشہ ہے
آنکھ ایمان لائی منظر پر
دل یہ کہتا ہے سب تماشہ ہے
میں نے دنیا کے رنگ دیکھے ہیں
میرے آگے یہ سب تماشہ ہے
دیکھتے ہیں جو ہم کسی کی طرف
دیکھنے کا سبب تماشہ ہے
وہ بھی دکھلائے جو کہ ہے ہی نہیں
تیری دنیا عجب تماشہ ہے
لا مکاں سے یہ دہر تک کا سفر
تب تماشہ تھا اب تماشہ ہے
جو تھا جینا عدن میں جی آئے
زندگی کیا ہے اب تماشا ہے
باب عالم میں کن کہا پہلے
پھر کہا زیر لب تماشا ہے
کیوں سر طور دیکھنے جائیں
تیرے جیسا وہ کب تماشا ہے
کیوں نہ آخر ہوں تجھ سے داد طلب
ہم کو کرنا ہی جب تماشہ ہے
سوچئے تو تماشۂ ہستی
کس قدر بے سبب تماشہ ہے
ماسوا دید جس میں تو ہو فقط
باقی جو کچھ ہے سب تماشہ ہے
پردہ داری سے کام کیا لیجے
شمسؔ ہونا ہی جب تماشہ ہے