شہر آباد ہو چکا بھی ہے
شہر آباد ہو چکا بھی ہے
اور پھر سے اجڑ رہا بھی ہے
روز و شب کا سفر بھی ہے جاری
اور مسافر تھکا ہوا بھی ہے
رات ہے چاند ہے ستارے ہیں
اور خوابوں کا سلسلہ بھی ہے
اک تو حوران خلد کی خواہش
اور پھر بخت نارسا بھی ہے
خود فریبی کی آخری حد تک
ہم نے بدلا تو آئینہ بھی ہے
ہم نے بازی تو یوں نہیں ہاری
کوئی اپنا ادھر گیا بھی ہے
ایک تو دور ہے بہت منزل
اس پہ پر پیچ راستہ بھی ہے
زندگی جتنی خوب صورت ہے
اس سے بڑھ کر یہ بد نما بھی ہے
شہر میں شور ہے قیامت کا
اور فرحتؔ غزل سرا بھی ہے