آج میں ہوں شام ہے ساقی ہے دور جام ہے
آج میں ہوں شام ہے ساقی ہے دور جام ہے
پاؤں کی ٹھوکر پہ اپنی گردش ایام ہے
باغ میں تتلی ہے گل ہے حسن لالہ فام ہے
چاندنی ہے رقص میں رنگینیوں کی شام ہے
بے حسی کہئے اسے یا خوگر غم جانیے
اپنی ناکامی پہ بھی خوش یہ دل ناکام ہے
ہم کو ان سے ہے توقع وہ سراپا ہیں گریز
ہیں وفا نا آشنا ہم پر یہی الزام ہے
کون رخصت ہو گیا دیوی غزل کی رو رہی
شہر میں شعر و سخن کے اک مچا کہرام ہے
اک ذرا سا دل ہے اور دنیا جہاں کی آفتیں
سینکڑوں غم کے چراغوں سے سجا یہ بام ہے
میری فرحتؔ شاعری اس بے سخن کی دین ہے
شاعری کیا زندگانی بھی اسی کے نام ہے