شاہ زیب خان قتل کیس ہمارے نظام عدل پر کیا سوالات چھوڑ گیا ہے؟؟

دسمبر کی رات ہے۔ غنڈوں کے ہاتھوں  شاہ زیب خان  قتل ہوتا ہے۔  بہن دیکھتی ہے۔ درجنوں افراد دیکھتے ہیں۔ قاتل کو بھی، مقتول کو بھی۔ دہائی گزرتی ہے۔ غنڈے چھوٹ جاتے ہیں۔  ورثا سے معافی بھی مل جاتی ہے۔ تلخ ہے، پر  اہم کیا ہے؟ عدالتیں بھری ہیں۔  کیس لگے ہیں؟ جوتے چٹخاتے سوالی ہیں۔ کردار علیحدہ ہیں۔ کہانی ایک ہے۔

پر شاہ زیب خان قتل کیس کی کہانی علیحدہ ہے! کچھ نہ کچھ۔ کسی نہ کسی حد تک۔ کسی نہ کسی طرح۔ سوالات ہیں اور سخت ہو کر ابھرتے ہوئے؟ قانون، نظام عدل، ریاست سب کو مشکوک بناتے ہوئے۔ مگر کیسے؟

میں بتاتا ہوں۔سوالات جذباتی نہیں۔ سادہ ہیں۔ سنجیدہ ہیں۔ پر تلخ ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق کیس کی تصویر یوں بنتی ہے۔  دسمبر 2012 کی ایک رات تھی۔ شاہ زیب خان اپنی بہن  کے ہمراہ تھا۔ دونوں اپنی بہن کے ولیمے سے گھر جا رہے تھے۔  کچھ غنڈوں سے آمنا ساما ہوا۔ یہ غنڈے شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی تھے۔ ان میں شاہ رخ کا ملازم  مرتضیٰ لاشاری، نوابوں کے خاندان تال پور کے چشم و چراغ سراج اور سجاد اور دیگر ساتھی تھے۔  مرتضیٰ لاشاری نے شاہ زیب کی بہن کو چھیڑا۔ تلخ کلامی ہوئی۔ تلخ کلامی کے بعد شاہ رخ بندوقیں لہراتا ٹولی کے ہمراہ شاہ زیب اور اس کی بہن کے پیچھے نکلا۔ بھری گلی تھی۔ درجنوں افراد تھے۔ شاہ رخ نے شاہ زیب کو اس کی بہن کے سامنے گولیاں ماریں۔ 

یہ تھا تمام تر واقعہ۔ باقی عدالتی کاروائیوں کی تفصیلات ہیں۔ قانونی الجھنیں ہیں۔  دلچسپی ہو تو پڑھیے گا۔ لنک تحریر کے آخر میں مل جائے گا۔ پر یہ کہانی دوسری سینکڑوں سے علیحدہ کیسے ہے؟ اس سے سوالات کیا اٹھتے ہیں؟ اب اس پر بات کرتے ہیں۔

یہ کہانی دوسری کہانیوں سے علیحدہ کیسے؟

یہ کہانی علیحدہ اس طرح ہے کہ  مقتول شاہ زیب خود بھی ڈی ایس پی کا بیٹا تھا۔ عام طور پر کہانیوں میں متاثرہ پولیس سے نہیں ہوتے۔ جس نے کاروائی کرنی ہوتی ہے۔ قتل کے وقت شاہ زیب کے والد اورنگ زیب ڈی ایس پی تھے۔  عام طور پر کہانیوں میں قاتل طاقتور ہو تو شنوائی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ کیس دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں سے ہوتا ہوا اعلیٰ ترین عدلیہ تک پہنچا ہے۔ تین تین چیف جسٹسز نے سنا ہے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس محمد کھوسا۔ لیکن  قاتلوں کو سزا ہو کر بھی نہیں ہوئی۔ چلو ہوسکتا ہے کہ سب کام چپ چپیتے ہو رہا ہو۔ جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کیس میں  تو یہ بھی نہیں ہوا۔ میڈیا نے خوب شور مچایا ہے۔ سول سوسائٹی پیچھے تھی۔

شاہزیب خان قتل کی کہانی میں اتنا کچھ غیر معمولی تھا۔ لیکن نتیجہ وہی عامیانہ کیوں؟ انصاف لینے والے ریاست پاکستان کی انتظامیہ کے اہلکار تھے۔ انصاف کرنے والے ریاست پاکستان کے دوسرے ستون عدلیہ سے اعلیٰ ترین افراد تھے۔ میڈیا نے خوب دباؤ بنایا تھا۔ ہر کہانی میں یہ سب نہیں ہوتا، جو اس میں تھا۔ لیکن انصاف نہیں ہوا۔ قاتل چھوٹ گیا۔ مقتول کے ورثا نے معافی دے دی۔

ایک عام شہری کے طور پر میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا ریاست پاکستان کے قانون میں کوئی سقم ہے؟ کیا نظام میں سقم ہے؟ یا پھر مسئلہ کہیں اور ہے؟ کیونکہ انصاف مانگنے والے اس سے طاقتور کم ہی ہو سکتے ہیں۔ مجرم کو سزا دینے  والے چیف جسٹس سے  شاید اوپر نہیں ہو سکتے۔ اس کے  باوجود قاتلوں کو سزا نہیں ہو پائی۔ وہ بری ہو گئے۔ کیوں اور کیسے؟

میں مایوس نہیں ہونا چاہتا۔ لیکن حقائق تلخ ہیں۔ کیسے میں سمجھوں کہ ریاست مجھے انصاف دے سکتی ہے۔ میں تو عام شہری ہوں۔ یہاں تو ریاست اپنے ملازمین کو انصاف نہیں دے پائی۔ میں خود کو بے بس کیوں محسوس نہ کروں؟ آپ بتائیے۔

متعلقہ عنوانات