میں اگر صورت پروانہ فدا ہو جاتا

میں اگر صورت پروانہ فدا ہو جاتا
ان کو اندازۂ آئین وفا ہو جاتا


اپنی قدرت سے لیا کام الٰہی تو نے
ورنہ اس دور کا ہر شخص خدا ہو جاتا


ہم نے تقدیر کے مفہوم کو سمجھا ورنہ
ہم کو بھی شکوۂ ارباب جفا ہو جاتا


تم اگر دیکھنے والے کو نظر آ جاتے
حشر سے پہلے ہی اک حشر بپا ہو جاتا


اپنے گلشن کو وہ دوزخ نہ سمجھتا شاید
یک گوشہ بھی جو فردوس نما ہو جاتا


تو نے پہچان لیا عشق کی قدروں کا مزاج
یہ نہ پوچھ آج تری بزم میں کیا ہو جاتا


اپنی غیرت سے بچائے رہا اپنے کو عزیزؔ
ورنہ احباب کے ہاتھوں ہی فنا ہو جاتا