یاد عہد گل میں باقی ہیں ابھی رعنائیاں
یاد عہد گل میں باقی ہیں ابھی رعنائیاں
تیرتی ہیں غم کی گہرائی میں کچھ پرچھائیاں
دیر تک تنہا کھڑا دیکھا کیا اس موڑ پر
جا چکی تھیں جس طرف بجتی ہوئی شہنائیاں
سختیٔ دور خزاں کو چار دن بیتے نہیں
پھر وہی بلبل کے نغمے پھر چمن آرائیاں
خود سے بھی خلوت میں ملنے کو ترس جاتا ہوں میں
لپٹی رہتی ہیں ہمیشہ یوں مری پرچھائیاں
نورؔ بے پایاں خلا میں ڈوبتی ہے جب نظر
اور بڑھ جاتی ہیں میری رات کی تنہائیاں