حسن بے پردہ ہے جلوہ عام ہے

حسن بے پردہ ہے جلوہ عام ہے
دیکھنا اہل نظر کا کام ہے


کچھ نہیں ہوتا بجز حکم خدا
آدمی تو مفت میں بدنام ہے


اب خدا بخشے نہ بخشے کیا کروں
دل تو میرا بندۂ اصنام ہے


دیکھیے چلئے نظارے راہ کے
یہ سفر بس اور دو اک گام ہے


ہم نشینو اب تو میرے واسطے
زندگی ٹوٹا ہوا اک جام ہے


درد بھی کچھ دب گیا ہے دل کے ساتھ
نورؔ اس کروٹ بہت آرام ہے