زندگی کو ایک رنگیں داستاں سمجھا تھا میں

زندگی کو ایک رنگیں داستاں سمجھا تھا میں
زندگی بار گراں ہے یہ کہاں سمجھا تھا میں


ہاں وہی آنسو ٹپک کر کتنا رسوا کر گئے
جن کو اپنا رازدار بے زباں سمجھا تھا میں


ان کا دامن تھام کر کتنے درخشاں ہو گئے
میرے وہ آنسو کہ جن کو رائیگاں سمجھا تھا میں


اللہ اللہ ان کے پائے ناز کا حسن خرام
رہ گزر تھی ان کی جس کو کہکشاں سمجھا تھا میں


تہ بہ تہ ظلم و ستم کی اک ردائے نیلگوں
کھینچ دی سر پر جسے ہفت آسماں سمجھا تھا میں


عجیب شخص تھا منصور سوچتا ہوں میں
کہ دے کے سر بھی پکارا کیا خدا ہوں میں


نہ سیرگاہ نہ میری قیام گاہ یہاں
بھٹک کے حد تعین میں آ گیا ہوں میں


خرد کی ساری حدیں پار ہو گئیں پھر بھی
کسی پہ یہ نہ کھلا آج تک کہ کیا ہوں میں


سنا ہے جب سے ہر اک شے میں تیرا جلوہ ہے
بڑے غرور سے آئینہ دیکھتا ہوں میں