شاید مجھے تم نے کبھی سمجھا بھی نہیں تھا

شاید مجھے تم نے کبھی سمجھا بھی نہیں تھا
میں ورنہ زمانے میں معما بھی نہیں تھا


کچھ دیر چمکتا مرے گھر میں تو وہ کیسے
وہ تو مری پلکوں کا ستارا بھی نہیں تھا


جیسا مجھے برباد جہاں اس نے کیا ہے
اس طرح تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا


دیکھا تو یہ سوچا کہ ہمیشہ سے ہوں واقف
پہلے تو اگرچہ اسے دیکھا بھی نہیں تھا


آواز دیے جاتا تھا دل دور سے اس کو
گو اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا بھی نہیں تھا


واقف ہوئے دنیا سے تو معلوم ہوا یہ
اپنا جسے سمجھے تھے وہ اپنا بھی نہیں تھا


کہنے کی ہے یہ بات کہ وہ چھوڑتا دنیا
سچا تھا وہ عادلؔ مگر اتنا بھی نہیں تھا