شام ہے دھواں دھواں
کیوں شام کا آنچل میلا ہے
ہر سمت دھواں سا پھیلا ہے
معدوم ہوئے آثار سبھی
کلیوں کی چنچل آنکھیں
جھکی جھکی سی موندے پلکیں
گل بدن سر نگوں ہو گئے
خوشبو بھی اڑی
اور گیسوئے شب میں جا الجھی
مہتاب بھی ابھرا چپکے سے
دھندلا دھندلا
پھیکا پھیکا
مغموم شعاعیں پھیکی سی
ہر سمت تھا اس کا عکس حزیں
اجڑا اجڑا
ویراں ویراں
لمحوں کی زبانیں گنگ ہوئیں
عقدے کی کڑیاں کھلتی گئیں
جب تیز تھی آندھی دور کہیں
اڑتی تھی قبائے جسم وہیں
بے چین ہوئی پھر روح بہت
کچھ بے آواز سی چیخیں تھیں
تحلیل ہوا میں ہوتی تھیں
کچھ ابر کے ٹکڑے آوارہ
جیسے خوشیوں کا پشتارہ
تھک کر بکھرا دے کوئی انہیں
پروائی کا جھونکا ہلکا سا
پھر دور اڑا لے جائے انہیں
اب شام کی اس تنہائی میں
یوں بیٹھے ہیں چپ چاپ سبھی
کب ہوگی سحر معلوم نہیں
لیکن منظر ان صبحوں کا
نظروں میں سجا کر بیٹھے ہیں
ہر سانس گراں
ہر آس گماں
ہر راز نہاں
چپ چاپ زباں
نمناک سی آنکھوں پر بوجھل
پلکوں کو جھکائے بیٹھے ہیں