دلوں میں جب گماں ہوں گے مکیں آہستہ آہستہ

دلوں میں جب گماں ہوں گے مکیں آہستہ آہستہ
تو دھندلا جائے گا نور یقیں آہستہ آہستہ


دل ناداں ابھی خوگر نہیں یہ غم اٹھانے کا
اٹھے گی تیرے در سے یہ جبیں آہستہ آہستہ


نظر منزل پہ ہو تو اختلاف راہ کا غم کیا
پہونچتی ہیں سبھی راہیں وہیں آہستہ آہستہ


کشش میری وفاؤں کی کہاں تک رائیگاں جاتی
جھکی میری طرف لوح جبیں آہستہ آہستہ


مرے احباب نے اس کو کیا مجھ سے جدا جوں جوں
وہ آتا ہی گیا میرے قریں آہستہ آہستہ


لہو ٹپکا ہے رفتہ رفتہ مژگان مغنی سے
ہوا ہے خوش دل اندوہ گیں آہستہ آہستہ


مرے انفاس کی ہر ضرب تھی کاری سے کاری تر
کرم فرما ہوا عرش بریں آہستہ آہستہ


ہوا طاری جمود آفاق کے رنگیں اشاروں پر
ہوئی گردش سے بے بہرہ زمیں آہستہ آہستہ


مدد اے جذبۂ اشک مسلسل سانس لینے دے
سکھا لینے دے بھیگی آستیں آہستہ آہستہ


خدارا بس اسی انداز سے انکار کرتا جا
بنی جاتی ہے ہاں تیری نہیں آہستہ آہستہ


میں اپنے ہونٹ سی ڈالوں گی لیکن یہ نہ دیکھوں گی
پشیماں ہو نگاہ شرمگیں آہستہ آہستہ


بہت آساں نہ سمجھو سنگ دل دل موم ہو جانا
اترتی ہے نگاہ اولیں آہستہ آہستہ


کوئی جذبہ ہے شاید تجھ میں ہانیؔ ناتمام اب بھی
سنی ہے دل میں آہٹ سی کہیں آہستہ آہستہ