رہے گی داستاں باقی ہے جب تک یہ جہاں باقی
رہے گی داستاں باقی ہے جب تک یہ جہاں باقی
کہیں باقی ہیں قصہ گو کہیں ہیں رازداں باقی
عبث ہے فخر اے دل تجربوں کی آزمائش پر
ابھی فردا کے انسانوں کی خاطر ہیں زماں باقی
مکیں کتنے ہیں بے دیوار و در کے ان زمینوں پر
نہیں ہے سر پہ گر سایہ تو کیا ہے آسماں باقی
خزاں نے کر دیا برباد تیرا گلستاں تو کیا
ابھی تو اس کی راہوں پر ہیں لاکھوں آشیاں باقی
نہیں اچھا زبان حال سے آہ و بکا ٹپکیں
ابھی ماضی کے لب پر ہی ہے کچھ شور فغاں باقی
فریب وعدۂ فردا بہت ہی عارضی شے ہے
رہیں گے عمر بھر اس دل پہ چوٹوں کے نشاں باقی
گلہ تو کر نہ اپنی آبلہ پائی کا رو رو کر
ہزاروں راستے باقی ہزاروں کارواں باقی
ابھی سے اس طرح ہانیؔ نہ بیٹھو مطمئن ہو کر
ابھی تو اور بھی دشوار تر ہیں امتحاں باقی