دنیا کی دل دکھانے کی عادت نہیں گئی
دنیا کی دل دکھانے کی عادت نہیں گئی
اپنی بھی مسکرانے کی عادت نہیں گئی
دامن جلا یہ دل جلا یہ انگلیاں جلیں
اپنی دیے جلانے کی عادت نہیں گئی
کچھ وہ غنیم جان بھی ہے مستقل مزاج
کچھ میری جاں سے جانے کی عادت نہیں گئی
اس سے کہو خلوص سے لوٹا کرے مجھے
میری فریب کھانے کی عادت نہیں گئی
وہ شہر بد نصیب ہے اس کے مزاج میں
محسن کا گھر جلانے کی عادت نہیں گئی
کچھ روشنی سے ان کو عداوت ازل سے ہے
کچھ اپنی جگمگانے کی عادت نہیں گئی
پھونکوں سے آفتاب بجھانے کی جستجو
بچوں سی اس زمانے کی عادت نہیں گئی
گو تلخیٔ حیات سے پتھرا گیا وہ شخص
لیکن غزل سنانے کی عادت نہیں گئی