سوال لطف و کرم پر قیاس کیا کرتے

سوال لطف و کرم پر قیاس کیا کرتے
وہ مل بھی جاتا تو ہم نا سپاس کیا کرتے


ہر ایک شخص ملا داستان درد لیے
ہم اپنے زخم نہاں بے لباس کیا کرتے


وہ گھومتا پھرے لے کر جہان مٹھی میں
ہم اپنا خوف لیے آس پاس کیا کرتے


دل و دماغ پہ جب اختیار تھا اس کا
کسی حوالے سے پھر التباس کیا کرتے


یہ سوچتے تھے کہیں حال دل اسے لیکن
بتا کے کیفؔ اسے دکھ اداس کیا کرتے