سرد موسم کی خطا تھی نہ زمانے کی تھی

سرد موسم کی خطا تھی نہ زمانے کی تھی
شمع کو جس نے بجھایا وہ ہوا میری تھی


امتحاں روز لیا کرتا ہے میرا اب وہ
آزمانے کی کبھی جس سے گزارش کی تھی


کر چکا تھا میں سمندر سے کنارا کب کا
جس جگہ ڈوبا تھا میں کہتے ہیں ساحل کی تھی


ہجر و قربت کے بنے اتنے فسانے کیسے
چاندنی چھت پے مری اتنی کہاں بکھری تھی


کیوں تپش مجھ میں ہے کیوں جسم سیہ ہوتا ہے
رہ گزر میں تو مرے دھوپ کہاں اتری تھی


اب کوئی خواب نہ آنکھوں میں تصور ہے بشرؔ
ورنہ آنکھوں میں مری نیند کہاں رہتی تھی