سراب و دشت وہی ساربان تیسرا ہے
سراب و دشت وہی ساربان تیسرا ہے
سفر کے ساتھ بندھا امتحان تیسرا ہے
حضور فہم و فراست سے کام لیجئے گا
سڑک کے مغربی جانب مکان تیسرا ہے
یہ دو جہان سے آگے کی ایک منزل ہے
عطائے عشق محمد جہان تیسرا ہے
ازل ابد کے نشاں زندگی کے حامی ہیں
تباہیوں کی عبارت نشان تیسرا ہے
ہم اس سے پہلے بھی گزرے ہیں امتحانوں سے
پڑاؤ پہلا سہی امتحان تیسرا ہے
یہ دونوں کان تو دیوار کی امانت ہیں
جو انتہائے یقیں ہے وہ کان تیسرا ہے
میں دھوپ اوڑھ کے نکلا تو یہ کھلا فیصلؔ
یقین دوسرا موسم گمان تیسرا ہے