اگرچہ تم سا بنایا نہیں گیا ہوں میں
اگرچہ تم سا بنایا نہیں گیا ہوں میں
مگر بنا کے مٹایا نہیں گیا ہوں میں
اسے یہ دکھ کہ زمیں تنگ قافیہ مشکل
مجھے یہ دکھ کہ نبھایا نہیں گیا ہوں میں
میں جس طرف سے مکمل دکھائی دیتا ہوں
اسی طرف سے دکھایا نہیں گیا ہوں میں
یہ انکساری ازل سے مرے خمیر میں ہے
جھکا ہوا ہوں جھکایا نہیں گیا ہوں میں
غرور لازمی عنصر تھا اس وزارت کا
سو خود ہٹا ہوں ہٹایا نہیں گیا ہوں میں
میں اپنی ذات میں اک معتبر حوالہ ہوں
کسی کے ساتھ ملایا نہیں گیا ہوں میں
میں مسئلوں میں فلسطین ہوں مگر فیصلؔ
کسی جگہ پہ اٹھایا نہیں گیا ہوں میں