مجھ پر نشاں لگائیے پہلے سوالیے
مجھ پر نشاں لگائیے پہلے سوالیے
پھر مسئلوں کو کھولیے اور حل نکالیے
جذبات آ سکے ہیں کبھی اختیار میں
آنکھوں کی فکر چھوڑیئے دل کو سنبھالیے
وحشت نے میری نیند پہ پہرے لگا دئے
کچھ خواب میری آنکھ کی جانب اچھالیے
وہم و گماں اتار کے پھینکے ہیں اور پھر
ہم نے یقیں کی اون سے خرقے سلا لیے
کم پڑ رہا تھا پہلے ہی کشکول زندگی
اور ہم نے اپنی ذات کے غم بھی اٹھا لیے
کچھ لوگ گاؤں چھوڑ کے شہروں میں جا بسے
باقی کو انتظار کی دیمک نے کھا لیے
فیصلؔ وہ پھر بھی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوا
پردے بھی درمیان سے سارے اٹھا لیے