سرائے دہر کا جلتا مکان چھوڑ گیا
سرائے دہر کا جلتا مکان چھوڑ گیا
مگر وہ شخص کہ اپنا نشان چھوڑ گیا
سکون کے وہ سبھی پل تو لے گیا ہے مگر
مرے وجود میں اپنی تھکان چھوڑ گیا
بھنور کے بیچ مرے ناخدا کو کیا سوجھی
کہ ناؤ چھوڑ گیا بادبان چھوڑ گیا
قفس میں تھا تو پرندہ چہکتا رہتا تھا
مگر فلک پہ وہ اپنی اڑان چھوڑ گیا
کسی بھی شخص کے جانے کا کیا گلہ کرتا
بلا کی دھوپ میں جب سائبان چھوڑ گیا