اک مسافر کی طرح دور سے آیا ہوا میں
اک مسافر کی طرح دور سے آیا ہوا میں
اب کہاں جاؤں ترے در سے اٹھایا ہوا میں
یہ الگ بات کہ دیمک نے مجھے چاٹ لیا
اک شجر تھا ترے ہاتھوں کا لگایا ہوا میں
میرا ہونا تری دنیا میں نہ ہونے جیسا
لوح ہستی پہ سے اک حرف مٹایا ہوا میں