میرے اشجار عزادار ہوئے جاتے ہیں

میرے اشجار عزادار ہوئے جاتے ہیں
گاؤں کے گاؤں جو بازار ہوئے جاتے ہیں


ابھی ہجرت کا ارادہ بھی نہیں ہے میرا
راستے کس لئے دشوار ہوئے جاتے ہیں


جو فریقین کے مابین سلجھ سکتے تھے
مسئلے سرخیٔ اخبار ہوئے جاتے ہیں


صاحب عز و شرف ایک نظر ہم پر بھی
تیری دنیا میں بہت خار ہوئے جاتے ہیں


ایسی اشیائے زمانہ میں کشش ہے کہ سبھی
دیکھ دنیا کے طلب گار ہوئے جاتے ہیں


میں کنارے پہ کھڑا دیکھ رہا ہوں اور لوگ
جست بھر بھر کے سبھی پار ہوئے جاتے ہیں


خشک پتوں کی طرح ہم بھی تو احمدؔ عرفان
ٹوٹ کر شاخ سے بے کار ہوئے جاتے ہیں