جب ابتدا چراغ تھی جب انتہا چراغ

جب ابتدا چراغ تھی جب انتہا چراغ
محفل کے اختتام پہ پھر کیا ہوا چراغ


تو ہی بتا کہ انجمن آرائی کیا ہوئی
اس انجمن میں تو بھی تو جلتا رہا چراغ


میرے قریب آ کے بھی اتنا گریز کیوں
میرے ندیم تھا کبھی میں بھی ترا چراغ


پھر اس کے بعد حیرت وہم و گمان تھی
جب بن گیا وجود میں اک آئنہ چراغ


گزری جو مجھ پہ گزری مری بات اور ہے
لیکن جو تجھ پہ گزری مجھے وہ سنا چراغ


منظر ہے رات کا ہی ترے کینوس پہ کیوں
جگنو بنا شجر کبھی پتے بنا چراغ


چوپال کی کہانی کے کردار کیا ہوئے
شب ختم ہو گئی ہے سو بجھنے لگا چراغ


احمدؔ بس ایک رات میں قصہ تمام شد
میں تھا فصیل شام پہ جلتا ہوا چراغ