سر سے پا تک درد پہن کر بیٹھے ہیں
سر سے پا تک درد پہن کر بیٹھے ہیں
ناکامی کی گرد پہن کر بیٹھے ہیں
خوشحالی کے جو لباس بھیجے تم نے
گھر کے سارے فرد پہن کر بیٹھے ہیں
ہریالی کے انتظار میں سارے پیڑ
تن پر کپڑے زرد پہن کر بیٹھے ہیں
اگلے سین کی تیاری میں سب کردار
افسانے کا درد پہن کر بیٹھے ہیں
لہجے میں گرماہٹ اور نہ جذبوں میں
ہم سب موسم سرد پہن کر بیٹھے ہیں