سرکشی جب بھی قلمکار میں آ جاتی ہے
سرکشی جب بھی قلمکار میں آ جاتی ہے
اک مصیبت لئے سرکار میں آ جاتی ہے
جب بغاوت پہ بھی انعام دیے جاتے ہیں
سر جھکائے ہوئے دربار میں آ جاتی ہے
سرخ روئی و بلندی بھی عطا ہوتی ہے
جب شریعت کسی کردار میں آ جاتی ہے
تیری الفت کی قسم ایک ترے آنے سے
زندگی لوٹ کے بیمار میں آ جاتی ہے
شاعری نیند اڑاتی ہے سخن سازوں کی
اور پھر عادت و اطوار میں آ جاتی ہے
جذبۂ عشق ابھرتا ہے زلیخاؤں میں
جستجو مصر کے بازار میں آ جاتی ہے
یہ حکومت کے بکھرنے کا سبب ہے دانشؔ
بے حسی جب کسی سرکار میں آ جاتی ہے