ابھی تک زبانوں پہ فریاد ہے
ابھی تک زبانوں پہ فریاد ہے
مرا ملک برسوں سے آزاد ہے
اسے سن کے ہے داد مجھ کو ملی
مری شاعری میری روداد ہے
تمہیں عدل و انصاف آتا نہیں
ہمیں اپنی سلطانیت یاد ہے
میں انگلی پکڑ کر چلا نہ کبھی
مرا تجربہ میرا استاد ہے
اخوت سے جینے کا فن سیکھ لے
اگر تو بھی آدم کی اولاد ہے
کرو نیکیاں کام اچھے کرو
ہر اک زندگانی کی میعاد ہے
دعائیں بزرگوں کی شامل رہیں
تو دانشؔ مرا گھر بھی آباد ہے