سنگ اک اور گرا دل کے نہاں خانے میں

سنگ اک اور گرا دل کے نہاں خانے میں
اشک گرتے ہی رہے پھر اسے بہلانے میں


میں سمجھ پائی نہ اے دل رہی یہ کس کی خطا
آ گئی کیوں میں ترے دام میں انجانے میں


اس کی باتوں میں اگرچہ تھی وفا کی خوشبو
دیر پھر بھی نہ لگی دھوکا مجھے کھانے میں


جھوٹ کو دیتا ہے وہ سچ کا لبادہ کیسا
لطف آتا ہے بہت اس کے اس افسانے میں


فرق کیا مجھ کو پڑا ایک شکست اور سہی
ہے عجب سا ہی نشہ مات کے کھا جانے میں


شرمسار اپنے کہے پر نہیں ہے فاطمہؔ وہ
شرم آتی ہے اسے اپنے ہی شرمانے میں