نظم
ڈھیروں شوخ سے لمحے
ہنس مکھ سی کئی گھڑیاں
یاد میں اب تک زندہ ہیں
ان گنت سے پل ملن کے
کچھ انمول سے وہ وعدے
ترے شکوے اور ارادے
ساتھ میں بیتے شام و سحر
قسمت کے وہ زیر و زبر
باقی سب بے مول ہوئے
پل یہ بس انمول ہوئے
لمحے تیری یادوں کے
یاد میں اب تک زندہ ہیں
دن بھر تجھ سے باتیں کرنا
پھر آنکھوں میں راتیں کرنا
یاد میں اب تک زندہ ہیں
یاد کے لمحے جیت چکے ہیں
کتنے زمانے بیت چکے ہیں
یاد میں اب تک زندہ ہیں
تم بن ہم ادھورے ہیں
وعدے لیکن پورے ہیں