سمجھ رہے تھے کہ اب شب گئی سحر آئی

سمجھ رہے تھے کہ اب شب گئی سحر آئی
ترے دیار میں وہ روشنی نظر آئی


نشاط و غم کا تعلق بھی کیا تعلق ہے
ابھی ہنسے بھی نہ تھے ہم کہ آنکھ بھر آئی


منا رہے ہیں منانا تھا جن کو جشن بہار
مرے نصیب میں تزئین بام و در آئی


یہ اور بات کہ سب کچھ کہا ہو سچ تو نے
مجھے ہنسی تو تری بات بات پر آئی


کمال ہے یہ تصور کی مشق پیہم کا
ترے حجاب کی تصویر بھی اتر آئی


وثوق عزم پہ ہیں کامرانیاں موقوف
خیال رہ گزر آتے ہی رہ گزر آئی


بلا سے عہد بہاراں نے دل کو زخم دئے
نصیرؔ صورت گلزار تو نکھر آئی