میں چہرے پر وصیت لکھ رہا ہوں

میں چہرے پر وصیت لکھ رہا ہوں
پسینے سے مشقت لکھ رہا ہوں


ملی ہے آج فرصت لکھ رہا ہوں
بہت تاخیر سے خط لکھ رہا ہوں


سمے کی دھوپ سے چہرے پر اپنے
ہر اک پل کی اذیت لکھ رہا ہوں


کئی دن کے میں فاقوں سے گزر کر
بس اک ٹکڑا غنیمت لکھ رہا ہوں


یہاں پر کچھ شناساؤں سے مل کر
یہ دور اجنبیت لکھ رہا ہوں


کبھی آ کر ملو مجھ اجنبی سے
میں اک لمحہ قیامت لکھ رہا ہوں


امیر کارواں کو یہ خبر دو
کہ منزل کی بشارت لکھ رہا ہوں


ترا احسان ہے مجھ پر مری جاں
ترے غم کی بدولت لکھ رہا ہوں


یہ موسم کے سبھی رنگوں میں ڈھل کر
مزاج آدمیت لکھ رہا ہوں