سحر قریب ہے خلوت مہک رہی ہوگی
سحر قریب ہے خلوت مہک رہی ہوگی
شراب ساغر غم سے چھلک رہی ہوگی
وہ بات ترک تعلق کا جو سبب ٹھہری
وہ بات ترک تعلق کا جو سبب ٹھہری
وہ بات خود ترے دل میں کھٹک رہی ہوگی
یہ اجلی شام مہکتے ہوئے یہ سناٹے
وہ اپنے منہ کو دوپٹے سے ڈھک رہی ہوگی
میں صبح و شام گزرتا تھا جس سے بے مقصد
وہ راہ اب بھی مری راہ تک رہی ہوگی
قلم ہے صدیوں سے مصروف حسن کاری میں
سحر میں تیری ادا بھی جھلک رہی ہوگی
یہ بات الگ ہے میں راہوں کی جستجو میں ہوں
مری تلاش میں منزل بھٹک رہی ہوگی
حیاتؔ پھر مہک اٹھی ہے یاد ماضی کی
ہمارے گاؤں میں پھر فصل پک رہی ہوگی