سفیر امن
دنیا میں کون مرتا ہے اپنے مکاں سے دور
بھائی بہن سے بیوی سے بچوں سے ماں سے دور
ہندوستاں کا لعل ہے ہندوستاں سے دور
یہ موت کیسی موت ہے سارے جہاں سے دور
ایسی کڑی تھی کس کی نظر تجھ کو کھا گئی
پردیس میں یہ کیسے تجھے موت آ گئی
او جانے والے دیکھ تو اپنے وطن کو دیکھ
خون جگر میں ڈوبے ہوئے مرد و زن کو دیکھ
نوشہ بنا کے بھیجا تھا پھولوں میں کل تجھے
ارتھی اٹھانے آئے ہیں رادھا کشن کو دیکھ
کتنے ہی لوگ آئے ہیں درشن کے واسطے
طائر جو مر گیا ہے نشیمن کے واسطے
برطانیہ سے روس سے جاپان و مصر سے
ہر اک سفیر پھول چڑھانے کو آ گیا
لو چوڑیاں اتار للیتا بھی آ گئی
بیٹا چتا کو آگ لگانے کو آ گیا
چہرہ نظر جو آیا تو چیخیں نگل گئیں
لاکھوں چتائیں جیسے کلیجے میں جل گئیں