سفر سے لوٹ کے ہم اپنے گھر نہیں جاتے

سفر سے لوٹ کے ہم اپنے گھر نہیں جاتے
تھکن تو ہوتی ہے اے دوست مر نہیں جاتے


یہ بات طے ہے فقط آبرو ہی جاتی ہے
ہے راہ عشق کبھی اس میں سر نہیں جاتے


اگرچہ منزل مقصود مل گئی ہوتی
تو در بدر کہاں پھرتے ٹھہر نہیں جاتے


تمہاری یاد میں حجرے میں لیٹ جاتے ہیں
غموں کے مارے ہوئے بام پر نہیں جاتے


وہ پانچ وقت بلاتا ہے ہم کو مسجد میں
ہیں بد نصیب بہت ہم اگر نہیں جاتے


جدائی یوں تو تن و سر میں ہو گئی رضوانؔ
مگر یزید کے بچوں کے ڈر نہیں جاتے