صبح سے اور میاں شام سے کیا ملتا ہے
صبح سے اور میاں شام سے کیا ملتا ہے
یہ ہے دنیا یہاں آرام سے کیا ملتا ہے
تو کسی شہر کا مالک ہے تو ہوگا مری جان
یہ بتا مجھ کو ترے نام سے کیا ملتا ہے
جب غلط کام کرے گا تبھی شہرت ہوگی
تیری بستی میں سہی کام سے کیا ملتا ہے
ساتھ چل جام اٹھا منہ سے لگا پی تو سہی
مجھ سے کیا پوچھتا ہے جام سے کیا ملتا ہے
چند سکوں کے عوض جسم ملا کرتے ہیں
اور اس شہر میں کم دام سے کیا ملتا ہے
وصل سے ملتا ہے جو ملتا ہے دیوانے کو
اے خدا ہجر کے ایام سے کیا ملتا ہے