نا معلوم سفر
گھر سے نکلا ہے ہر اک شخص کچھ امید لیے
دل میں ارمان بھی ہیں راستے پر خار بھی ہیں
کہیں ٹھوکر کہیں پتھر کہیں دیواریں بھی
نہیں معلوم ہے منزل کا پتا دنیا میں
پر سفر زیست کا ہر حال میں طے کرنا ہے
کوئی اس جد و جہد میں ہے کہ دولت مل جائے
کوئی کہتا ہے مجھے میری محبت مل جائے
کوئی چاہتا ہے اسے ساری شجاعت مل جائے
کوئی کہتا ہے سوالات سے راحت مل جائے
یعنی ہر حال میں ہر شخص کو کچھ چاہیے ہے
اور اس دوڑ میں سانسوں کا بھروسہ بھی نہیں
آگے اک موڑ ہے اس موڑ پہ دو رستے ہیں
کون سے راستے جانا ہے کسے چھوڑنا ہے
حادثے کتنے ہوں دوران سفر کیا معلوم
اس سفر میں کوئی منزل بھی ملے نا معلوم