سفر کا شوق نہ منزل کی جستجو باقی

سفر کا شوق نہ منزل کی جستجو باقی
مسافروں کے بدن میں نہیں لہو باقی


تمام رات ہواؤں کا گشت جاری تھا
سویرے تک نہ رہا کوئی ہو بہ ہو باقی


سبھی طرح سے تعارف تو ہو گیا ان کا
رہی ہے اب تو ملاقات روبرو باقی


جو بھیڑ بکھرے تو دیکھوں طلب یہ کیسی ہے
دیار غیر میں ہے کس کی جستجو باقی


وہی نظارے وہی گرمئ سخن ہے مگر
نہ ہی وہ بات نہ وہ طرز گفتگو باقی


زمانہ مجھ سے جدا ہو گیا زمانہ ہوا
رہا ہے اب تو بچھڑنے کو مجھ سے تو باقی


اسی لحاظ کا عابدؔ ملال ہے ہم کو
رہا نہ آج جو دوران گفتگو باقی