سفر کا اور کوئی سلسلہ نکالیں گے
سفر کا اور کوئی سلسلہ نکالیں گے
بھٹک گئے تو نیا راستہ نکالیں گے
قریب آنے لگے گی جو وصل کی منزل
ہم اپنے بیچ کوئی فاصلہ نکالیں گے
سمیٹ کر کسی کونے میں گٹھڑیاں غم کی
نئی خوشی کے لیے ہم جگہ نکالیں گے
بنیں گے عشق عدالت میں ہم وکیل ترے
پرانی بات میں نکتہ نیا نکالیں گے
رہے جو عمر کی پوجا کے بعد بھی پتھر
دلوں سے ہم وہ سبھی دیوتا نکالیں گے
تری جفا میں ملا کر ستم زمانے کے
شراب غم کا عجب ذائقہ نکالیں گے
ہمیں خموش کیا جائے گا سدا کے لیے
اگر زبان سے کوئی صدا نکالیں گے
بھرے گی نیند جو ان بے قرار آنکھوں سے
ہم ایک عمر کا یہ رت جگا نکالیں گے