صدف کے کرب کو وہ مانتا ہے

صدف کے کرب کو وہ مانتا ہے
اک اک موتی کی قیمت جانتا ہے


نفاست سے بناتا ہے کھلونے
پسینے سے جو مٹی سانتا ہے


کہیں جاؤں وہ مجھ کو ڈھونڈ لے گا
مجھے میرا عمل پہچانتا ہے


میسر ہے ہوائے دشت اس کو
ردائے گرد سے جو چھانتا ہے


جو رہتا ہے ازل کی جستجو میں
وہ دنیا میں کسے گردانتا ہے


مرے قدموں سے وابستہ مسافت
مجھے ہر راستہ پہچانتا ہے


مبارک تجھ کو تیری بے ضمیری
مجھے اس جرم میں کیوں سانتا ہے


کثافت سے ہے توقیر لطافت
اندھیرا روشنی کو چھانتا ہے


جسے ہے یاد قوموں کی کہانی
ہوا کے رخ کو وہ پہچانتا ہے


ازل سے رمزؔ یہ زیب نظر ہے
کہیں سلمیٰ کہیں وہ کانتا ہے