سچی باتوں سے کھڑے سرکار کے ہوتے ہیں کان

سچی باتوں سے کھڑے سرکار کے ہوتے ہیں کان
دھیرے دھیرے بولئے دیوار کے ہوتے ہیں کان
دیجئے مجھ کو سزا پیغامبر کا کیا قصور
گرم کیوں اس مجرم گفتار کے ہوتے ہیں کان
باغ میں غنچہ جو چٹکا میں خوشی سے پھول اٹھا
آشنا کتنے صدائے یار کے ہوتے ہیں کان
میکدے میں کیوں نہ خالی جائے پھر واعظ کی بات
جب بھرے پہلے سے ہر مے خوار کے ہوتے ہیں کان
داغ سینے کے نہ دکھلا نالۂ پر شور کر
منہ پہ آنکھوں کی جگہ سرکار کے ہوتے ہیں کان
پوچھتا فاروقؔ شیخ مدرسہ ملتا اگر
بند کیا ہر صاحب دستار کے ہوتے ہیں کان