بروز حشر مرے ساتھ دل لگی ہی تو ہے

بروز حشر مرے ساتھ دل لگی ہی تو ہے
کہ جیسے بات کوئی آپ سے چھپی ہی تو ہے


نہ چھیڑو بادہ کشو میکدے میں واعظ کو
بہک کے آ گیا بیچارہ آدمی ہی تو ہے


قصور ہو گیا قدموں پہ لوٹ جانے کا
برا نہ مانیے سرکار بے خودی ہی تو ہے


ریاض خلد کا اتنا بڑھا چڑھا کے بیاں
کہ جیسے وہ مرے محبوب کی گلی ہی تو ہے


یقیں مجھے بھی ہے وہ آئیں گے ضرور مگر
وفا کرے گی کہاں تک کہ زندگی ہی تو ہے


مرے بغیر اندھیرا نہیں ستائے گا
سحر کو شام بنا دے گی عاشقی ہی تو ہے


بہ چشم نم تری درگاہ سے گیا فاروقؔ
خطا معاف کہ یہ بندہ پروری ہی تو ہے