ساقی
بتاؤں کیا جو رنگ گردش ایام ہے ساقی
جہاں کا ذرہ ذرہ کشتۂ آلام ہے ساقی
معاذ اللہ اب ہر ہر قدم پر دام ہے ساقی
گلستاں میں یہ آزادی کا فیض عام ہے ساقی
سمجھ سکتا ہے کون اس راز کو جز اہل مے خانہ
لباس صبح میں کتنی بھیانک شام ہے ساقی
قفس کیسا نشیمن کیا یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
نہ جب آرام تھا ساقی نہ اب آرام ہے ساقی
عجم بے بہرۂ ایماں عرب بے بہرۂ دانش
بایں آغاز دونوں کا برا انجام ہے ساقی
ستم یہ ہے کوئی شیشہ گروں کو کچھ نہیں کہتا
مری خارا شگافی مورد الزام ہے ساقی
حجابات تصور میں ابھی ہے ملت آدم
ابھی انساں شکار لعنت اقوام ہے ساقی
ابھی مردود درگاہ خرد ہے تابش ایماں
ابھی مقبول عالم ظلمت اوہام ہے ساقی
ابھی پیاسوں نے پائی ہی نہیں ہے راہ مے خانہ
خرد کی کوشش پیہم ابھی ناکام ہے ساقی
الجھ کر رہ گئے ہیں مدعیان ربوبیت
خیال خام بالآخر خیال خام ہے ساقی
چراغ راہ بن کر رہبری کی جس صحیفے نے
وہ جزدانوں کے شیشے میں چراغ بام ہے ساقی
ترا یہ رند سرگشتہ جسے فاروقؔ کہتے ہیں
اسی تنقید کے چلتے بہت بدنام ہے ساقی
خط پیمانہ عرق موج صہبا ہوتا جاتا ہے
اجازت ہو کہ اب آگے خدا کا نام ہے ساقی