سب ضرورت کا تو سامان ہے گھر میں رہئے

سب ضرورت کا تو سامان ہے گھر میں رہئے
کیا ہوا گر کوئی ہلکان ہے گھر میں رہئے


بھیڑ میں بھی نہ تھے سینے سے لگانے والے
آج تو شہر ہی ویران ہے گھر میں رہئے


سانس گھٹ جائے گی دیواروں کے کے اندر اک دن
اور سنتے ہیں کہ درمان ہے گھر میں رہئے


بند ہیں مندر و مسجد کی دکانیں ساری
آج بازار یہ سنسان ہے گھر میں رہئے


کل تلک ملک سے باہر جو کئے دیتے تھے
اب تو ان کا بھی یہ فرمان ہے گھر میں رہئے


ہر مرض میں نہیں ہوتی ہے سہولت اتنی
بھوک سے مرنا تو آسان ہے گھر میں رہئے


قید پھر قید ہی ہوتی ہے مگر حسب حال
سب سے بہتر یہی زندان ہے گھر میں رہئے


آپ دل سے مجھے بے دخل کئے دیتے ہیں
اب تو سرکار کا اعلان ہے گھر میں رہئے


اس کی تصویر ان آنکھوں کے لیے کافی ہے
اور پھر میر کا دیوان ہے گھر میں رہئے