رکھیں ہیں صحرا جو اتنے تو جھیل بھی رکھو

رکھیں ہیں صحرا جو اتنے تو جھیل بھی رکھو
کبھی وصال کو تھوڑا طویل بھی رکھو


اسے کہو کوئی تصویر بھیج دے اپنی
جو جی رہے ہو تو کوئی دلیل بھی رکھو


نہ جانے کون سے اشعار کس کو چبھ جائیں
جو سچے شعر ہیں کہنے وکیل بھی رکھو


تمہیں بھی چاہیے عزت اگر زمانے سے
تو اپنے آپ کو تھوڑا ذلیل بھی رکھو


تمام لوگوں کی سرگرمیوں کا موسم ہے
جنوں کے شہر میں کوئی سبیل بھی رکھو


اتار کر یہ اداسی کبھی تو ٹانگ سکو
کسی دوال پہ اک ایسی کیل بھی رکھو


بڑے مزے کی سواری ہے دل کا یہ ٹٹو
لگام کس کے رکھو اور ڈھیل بھی رکھو


غموں کی صحبتیں اچھی نہ فاصلے اچھے
انہیں حصار میں رکھو فصیل بھی رکھو