خود کو سمیٹنے میں تھی اتنی اگر مگر

خود کو سمیٹنے میں تھی اتنی اگر مگر
بکھرا پڑا ہوں آج بھی تیرے ادھر ادھر


اپنی کمی سے کہہ دو کہ شدت سے تو رہے
دیکھو کہ رہ نہ جائے کہیں کچھ کسر وسر


اک روز تم بھی تو ذرا خود سے نکل ملو
طے کر لیے ہیں میں نے تو سارے سفر وفر


نفرت تری یا پیار ہو غم ہو شراب ہو
ممکن نہیں ہے تھوڑے میں اپنی گزر بسر


تو کیا گئی میں ہو گیا ہوں سخت جان ماں
لگتی نہیں ہے اب تو مجھے کچھ نظر وظر


مدت سے کچھ بھی تو تیری چلتی نہیں خدا
رکھا تو کر جہان کی بھی کچھ خبر وبر


بس عشق کا ہے مارا تو کچھ شعر کہہ دئے
ورنہ ہے آشناؔ میں کہاں کچھ ہنر ونر